سکول ختم ہوا تو نتیجے کے انتظار تک ہم گھر میں ماں کو
دوڑانے کیلئے بلکل آزاد تھے۔ اب تو ہمارا دن بھی سورج کی جمائیوں کے ساتھ کھل جاتا تھا۔ ہم دونوں اٹھتے ہی بھوک بھوک کی گردان لگانے لگ جاتے تھے۔ ماں ابھی نماز قرآن مجید سے بھی فارغ نہیں ہوئی ہوتی تھیں۔ وہ تین ماہ ماں تقربیا سارا دن جمعدار کی طرح جھاڑو اٹھائے رکھتی تھیں گھر کی صفائی کے ساتھ ہماری پٹائی کیلئے بھی۔
بچپن کو تو جیسے پر لگ گئے تھے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر بس جوانی کی طرف دوڑائے جا رہا تھا۔ میڑک کا نتیجہ نکلا تو خیر مقدم طور پر میں بورڈ میں سے دوسرے نمبر پر آیا تھا اور انما کے بھی بہت اچھے نمبر آئے تھے اماں ابا مطمئین اور پرمسرت تھے۔ شائد اسی خوشی میں اک شام ددھیال جس میں فقط ایک ہی چاچا تھے ان کی دو بیٹیوں سمیت اور ننھیال میں سے اکلوتی خالہ کو ان کے اکلوتی بیٹے اور میاں کے ساتھ کھانے پہ مدحو کیا گیا تھا۔
When school was over, we were completely free to run home to wait for the result. Now even our day would open with the setting of the sun. As soon as we both woke up, we would start to feel hungry. My mother had not even finished the Quran prayers yet. For almost three months, she used to sweep the floor like a sweeper all day to clean the house and beat us.
Time was passing much hurrily as we felt that we are running much fast towards youth age from childhood. When matric result was announced, , I got second position in the board and Inma also got very good marks. Mother and father were satisfied and happy. Perhaps in the same joy, one evening from patrimonial relatives where only uncle, including his two daughters, and from matrimonials only aunt with her only son and husband were invited for family feast .